دنیا میں محبت کو قربانی، ایثار اور بے غرضی کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر جب محبت ٹوٹنے لگے اور رشتہ بکھرنے کے دہانے پر ہو، تو سوال یہ اٹھتا ہے: کیا وہ قربانیاں جو دل سے دی گئی ہوں، واپس لی جا سکتی ہیں؟
ایک ایسا ہی چونکا دینے والا واقعہ حالیہ دنوں منظرِ عام پر آیا، جس نے نہ صرف سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی ہے بلکہ قانونی، اخلاقی اور سماجی حوالوں سے بھی متعدد سوالات کو جنم دیا ہے۔
محبت میں دیا گیا گردہ — اب طلاق کے بعد واپس چاہیے؟
اس متنازعہ کیس کی تفصیلات کے مطابق، ایک جوڑے نے اپنی شادی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک دوسرے کو گردے عطیہ کیے۔ دونوں میں محبت، اعتماد اور قربانی کی ایک اعلیٰ مثال قائم ہوئی، جسے جاننے والوں نے بے حد سراہا۔ لیکن وقت کے ساتھ رشتہ کمزور ہوا، اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔
اب، طلاق کے مرحلے پر شوہر نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ بیوی اسے وہ گردہ واپس کرے جو اس نے محبت کے جذبے کے تحت دیا تھا۔ شوہر کا مؤقف ہے کہ “یہ گردہ میں نے محبت میں دیا تھا، مگر اب جب وہ محبت باقی نہیں رہی، تو یہ قربانی بھی بے معنی ہو گئی ہے۔”
قانون کیا کہتا ہے؟
طبی اور قانونی ماہرین کے مطابق، انسانی اعضاء کا عطیہ ایک بار مکمل طور پر دوسرے شخص کے جسم کا حصہ بن جائے تو وہ واپس نہیں لیا جا سکتا — نہ جسمانی طور پر، نہ قانونی طور پر۔ عطیہ دینے والا شخص باقاعدہ رضامندی کے ساتھ اپنی مرضی سے یہ عمل کرتا ہے، جسے بعد میں بدلا نہیں جا سکتا۔
اخلاقی اور سماجی پہلو
اس واقعے نے معاشرے میں شدید جذباتی ردِ عمل کو جنم دیا ہے۔ کچھ افراد شوہر کے مطالبے کو غیر اخلاقی اور انتقامی رویے کی علامت قرار دے رہے ہیں، جبکہ چند حلقے اسے انسانی جذبات کا فطری ردعمل سمجھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس سوال پر بھرپور بحث جاری ہے:
“کیا محبت میں دی گئی قربانیاں، جیسے کہ جسم کا ایک عضو، رشتے کے ٹوٹنے پر واپس مانگی جا سکتی ہیں؟”
ماہرین کی رائے
ماہر نفسیات کے مطابق، ایسے مطالبے جذباتی عدم توازن اور ذہنی دباؤ کی علامت ہو سکتے ہیں۔ جب کوئی رشتہ ختم ہوتا ہے، تو اس کے ساتھ جڑی یادیں اور دی گئی قربانیاں بھی ایک طرح سے “گزرا ہوا وقت” بن جاتی ہیں۔ ان کی واپسی کی خواہش اکثر افسوس، غصے یا بدلے کی کیفیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔
کیا محبت کا کوئی مول ہوتا ہے؟
اس کیس نے ایک گہرے سوال کو جنم دیا ہے:
“کیا محبت میں دی گئی چیزیں — جذبات، وقت، اعتماد، یا اعضاء — واپس لی جا سکتی ہیں؟”
محبت کی فطرت بے غرضی اور نفع سے پاک ہوتی ہے۔ اگر اس میں حساب کتاب شامل کر لیا جائے، تو وہ تجارت بن جاتی ہے، تعلق نہیں۔
نتیجہ: رشتے اور قربانیاں — ایک سبق
یہ واقعہ ایک ناقابلِ یقین داستان ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی و اخلاقی سبق بھی ہے۔ محبت میں دی گئی قربانی کو جب “واپسی” کے مطالبے میں بدلا جائے، تو وہ رشتہ صرف جذباتی ہی نہیں، انسانی قدروں سے بھی عاری ہو جاتا ہے۔
بحیثیت معاشرہ، ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم رشتوں کو جذبات سے جوڑ رہے ہیں یا لین دین کی بنیاد پر پرکھ رہے ہیں؟ محبت کو قربانی سمجھنا چاہیے یا سرمایہ کاری؟
نوٹ:
استعمال کی گئی تصاویر اے آئی (AI) پر مبنی ہے اور صرف حوالہ جاتی مقصد کے لیے شامل کی گئی ہے۔